بہار قفس میں ہے اور خزاں آباد ہے
بہار قفس میں اور خزاں آباد ہے گلشنِ دہر کی روش روش برباد ہے نرگس نم دیدہ رہی مگر اب سنا ہے تتلی بےبس ہے، بلبل بھی ناشاد ہے چراغ گُل ہیں، بزم بھی بےرونق ہے ساقی کا دل اب بہ مائلِ فساد ہے چمن کا ہر گُل اور کوئل پریشان ہے آگے ہے گُلچیں اور پیچھے صیاد ہے نہ کرم تمھارا، نہ ستم ہی بھولا ہے کم نگاہی تمھاری اب بھی یاد ہے معصوم قید ہے ، ظالم کو سلام ہے ٹوٹ چکی ترازو اور سگ آذاد ہے زخم رِستے رِستے ناسور بن گیا ہے طبیب کو بلاؤ ، فریاد ہے ، فریاد ہے شاعر : ضیغم سلطان