Posts

بہار قفس میں ہے اور خزاں آباد ہے

Image
بہار  قفس  میں اور خزاں  آباد ہے گلشنِ دہر کی روش روش برباد ہے نرگس نم دیدہ رہی مگر اب سنا ہے تتلی بےبس ہے، بلبل بھی ناشاد ہے چراغ گُل ہیں، بزم بھی بےرونق ہے ساقی کا  دل اب بہ مائلِ فساد  ہے چمن کا ہر گُل اور کوئل پریشان ہے آگے ہے گُلچیں اور پیچھے صیاد ہے نہ کرم تمھارا، نہ ستم ہی بھولا ہے کم نگاہی تمھاری  اب  بھی یاد  ہے معصوم قید ہے ، ظالم کو سلام ہے ٹوٹ چکی ترازو اور  سگ آذاد  ہے زخم رِستے  رِستے ناسور بن گیا ہے طبیب کو بلاؤ ، فریاد ہے ، فریاد ہے شاعر : ضیغم سلطان

لاہور سے آگے

Image
"لاہور سے آگے" گرمی سے بےحال تھے حبس سے نڈھال تھے شمال سے یخ ہوا آئی ہم نے اک ترکیب لڑائی چلتے چلتے مری پہنچے چناروں کے دیس پہنچے وہاں بہار ہی بہار تھی اک ٹھنڈی آبشار تھی دیو قامت بلند پہاڑ تھے سبز شاداب اشجار تھے حسین وادیاں تھیں گہری کھائیاں تھیں فطرت سے روبرو ہوئے بوئے گل سے آشنا ہوئے مگر اک بات سچ ہے کہ لاہور لاہور ہے شاعر : ضیغم سلطان

قحط

Image
مسرتوں کے قحط میں جیتے ہیں یہ طوفان آخر کب ختم ہوں گے؟ نسیمِ بادِ بہاری کے منتظر ہیں ہم  قفس کے یہ دن کب ختم ہوں گے؟ پاؤں شل ہو گئے ہیں چلتے چلتے یہ اجاڑ رستے کب ختم ہوں گے؟ ردائے غم و الم اوڑھی ہے چمن نے خزاؤں کے راج کب ختم ہوں گے؟ سیاہیاں، تباہیاں پھیلیں آنگن میں تقدیر کے ستم کب ختم ہوں گے ؟ شاعر : ضیغم سلطان

قطعہ

Image
گلوں کو  مہکنے تو دو کلیوں کو کِھلنے تو دو جنگیں ہیں فقط تباہی تتلیوں کو جینے تو دو شاعر : ضیغم سلطان

دھندلے دھندلے منظر

Image
دھندلے دھندلے منظر دھواں دھواں آنکھیں روٹھے روٹھے قمر خون خون آہیں زرد زرد گل و ثمر سرد سرد شامیں آستین آستین خنجر بجھی بجھی کرنیں قریہ قریہ بنجر بھولی بسری یادیں  تھکے تھکے شجر آدھی ادھوری باتیں پتھر پتھر شہر قدم قدم گھاتیں شاعر : ضیغم سلطان

نین برکھا میں دل ڈوب مرا کب کا

Image
نین برکھا میں دل ڈوب مرا کب کا یادوں کا ریلہ بہا لے گیا سب کچھ کیسی عیدیں، کہاں کے تہوار اب وقت کا راہزن لے گیا سب کچھ تیرے بعد خاموشی مقدر ٹھہری تو گیا اور میرا لے گیا سب کچھ کیا دور تھا، جب ہر سو بہار تھی گلچیں چمن سے لے گیا سب کچھ غلط تھے ہم کہ وقت اپنا ہے سدا ظالم وقت ہمارا لے گیا سب کچھ شاعر : ضیغم سلطان

برکھا میں بیتے دن یاد آ رہے ہیں

Image
برکھا میں بیتے دن یاد آ رہے ہیں جب شہنائیوں سے آشنائی تھی ہر لمحہ مہکتا تھا صندل سا اپنا جب گل و گلزار سے گفتگو تھی اندھیروں کا کہیں نام تک نہ تھا حویلی قِندیلوں سے روشن تھی سازِ ہستی خوش نوا تھی ہر دم ہر ساعت بہاروں سے پُرامید تھی وہ بہاریں اب کہاں ڈھونڈیں جو تیری خوشبوؤں سے لبریز تھی شاعر : ضیغم سلطان

چنار جل جل کے راکھ ہوئے

Image
چنار جل جل کے راکھ ہوئے رو رو کے نرگس نڈھال ہوئی نازک تتلیاں سوگ میں ہیں  غم کشیدہ بلبل بےتال ہوئی نسیمِ بہار سہمی بیٹھی ہے رونقِ چمن رو بہ زوال ہوئی شگوفے مسکرانا بھول گئے بوئے گل پریشان حال ہوئی دھنک کے سب رنگ چُھوٹے آرزوئے رنگ و بو وبال ہوئی شاعر : ضیغم سلطان

منتظر ہے کائنات، عہدِ بہار کی

Image
منتظر ہے کائنات، عہدِ بہار کی خزاں کبھی تو چمن بدر ہو گی اب تاریکی میں رہنا گوارا نہیں  دیکھنا ہے کب نمودِ سحر ہو گی سب تلپٹ ہے, مگر کیسا شکوہ تمھیں کہاں ہماری خبر ہو گی؟ عیاں ہوں گی جب انکی چالیں تب محفل میں اپنی قدر ہو گی مت جانا کبھی کوئے صیاد تم اس کی ہر بات فقط شر ہو گی شاعر : ضیغم سلطان

خوشبوؤں میں بسا چمن چھوڑ آئے

Image
خوشبوؤں میں بسا چمن چھوڑ آئے کئی صندلی, گلابی خواب چھوڑ آئے اندوہ نصیبی کا کیا پوچھتے ہو تم اگتا سورج , چمکتا چاند چھوڑ آئے مرتے جگنوؤں کو کون روئے گا یہاں گلچیں باغ میں ردائے زرد چھوڑ آئے منور تھا جن سے شہرِ دل اپنا، جب وہ گئے، تو محفلِ بےچراغ چھوڑ آئے جب صدائے دل کی شنوائی نہ ہوئی پھر ہم اس بتِ بیداد کو چھوڑ آئے شاعر : ضیغم سلطان 

مرغانِ چمن غم دیدہ ہیں عرصے سے

Image
مرغانِ چمن غم دیدہ ہیں عرصے سے تتلیاں و جگنو اداس ہیں عرصے سے سرو و صنوبر کے کندھے جھکے ہوۓ بادِ سموم کی زد میں ہیں عرصے سے بادل بھی  ترکِ وطن پہ مجبور ہوئے بنجر  کھلیان پیاسے  ہیں عرصے سے دورِ ظلمت  کیوں نہ ہو طویل  یہاں شمش اور قمر مقید  ہیں عرصے سے ضرور ایک دن یہ محل گر جائیں گے ان کے تاج لرز تو رہے ہیں عرصے سے شاعر : ضیغم سلطان

سوگ طاری ہے شہرِ دل میں اب کے

Image
سوگ طاری ہے  شہرِ دل میں اب کے زردیاں اتر آئیں بہاروں  میں اب کے کھارے بادل برسے کھل کے رات بھر چمن کو کس کی نظر لگی ہے اب کے گریہ و زاری کرتے رہے  بیابانوں میں حالِ دل کوئی اپنا بھی سنتا اب کے مرگ آسا خاموشیاں ہیں تعاقب میں نغمۀ جان فزا سنے زمانہ بیتا اب کے چند سوال لکھ بھیجے ہیں صیاد کو منتظر ہوں، کب آتا ہے جواب اب کے شاعر : ضیغم سلطان

ظلمتوں کے دور چھٹنے ہی والے ہیں

Image
ظلمتوں کے دور چھٹنے ہی والے ہیں  تُو اگتے سورج, مہکتے گل دیکھے گا دور ہو جائیں گے تمام غم تیرے بھی تُو نیل میں ڈوبتے فرعون دیکھے گا  بُنے امیرِ شہر ہزار سازش، تو کیا، تُو  یہ محل، ریت کےٹیلے بنتے دیکھے گا وہ وقت بس ہی آیا سمجھو، جب تُو غلام گردش کو وادئ نور دیکھے گا   بنے بیٹھے ہیں جو ناخدا، خدائی کے تو وہ پہاڑ بھربھرے ہوتے دیکھے گا شاعر : ضیغم سلطان

سنو ! عہدِ بہار پھر سے آئے گا

Image
سنو ! عہدِ بہار پھر سے آئے گا گلشن پہ جوبن پھر سے آئے گا ملال جاتا رہے گا آہستہ آہستہ ہلالِ نو فلک پہ پھر سے آئے گا مسکرانا بھول بیٹھے تھے جو بلبلوں کا غول پھر سے آئے گا ڈوبے تھے جو, پھر ابھریں گے چمکتا سورج پھر سے آئے گا خواب کاری کا ہم پہ الزام مگر خواب سننے تُو پھر سے آئے گا شاعر ضیغم سلطان

اب دھوپ کے ڈیرے ہیں بستی میں

Image
اب دھوپ کے ڈیرے ہیں بستی میں چھاؤں نہ جانے کہاں ہجرت کر گئی پنچھی کہتے، دیکھ کے اجڑے گلشن کیا رُت ہے، میلے بھی اداس کر گئی تباہ ہیں باغ، وہ فاختائیں اب کہاں سبز قدم خزاں، ہر غنچہ فنا کر گئی صیاد حیران ہے کہ قفس ٹوٹا کیسے صبا مسرور کہ قسمت یاوری کر گئی گلچیں چاہے لاکھ بوئے گل کو روکے لیکن بانگِ گُل اپنا فرض ادا کر گئی شاعر : ضیغم سلطان

شدتِ غم سے سیاہ ہوئے گل و لالہ

Image
شدتِ غم سے سیاہ ہوئے گل و لالہ بلبل و مینا بھی اڑان بھرنے کو ہے اُلو ہی اب بولیں گے عہدِ بہار میں اب ہنرِ چمن بندی بھی مرنے کو ہے سرو و صنوبر کے قصے کیا سنائیں ان پر خزاؤں کا عذاب اترنے کو ہے تکان سے چُور، چکور کو چاند بھولا کہ زمانے میں سو کام کرنے کو ہے ہر سُو خاموشی طاری ہے، لگتا ہے شیرازۀ نخلِ ہستی بکھرنے کو ہے شاعر : ضیغم سلطان

بہاروں سے ان بن ہے اپنی آج کل

Image
بہاروں سے ان بن ہے اپنی آج کل یہ اکیلا چاند کیوں اتنا راجی ہے کیا پوچھتے ہو، حالات کا ہم سے یہ عہدِ ظَلم ہے، یہ دور نِراجی ہے جب اپنے حق کے لئے آواز اٹھائی حکم آیا کہ زباں ردازی اکاجی ہے یہ مت جانو کہ  خدائی انجان ہے یہ ترا قدم قدم ہی اِستدراجی ہے آگ لگاؤ گے جب کسی آشیانے کو مت بھولو تمھارا قصر زُجاجی ہے کب تک کرے کوئی گلشن افروزی جب گُل ہی ہو مائل بہ تاراجی ہے سج دھج کے آئے گی صبح روشن اداسی ہے ، پیرہنِ شام ملگجی ہے شاعر : ضیغم سلطان معنی : * راجی : پُر امید * ظَلم : گمراہی * نراجی : انتشاری * اکاجی : نقصان دہ * اِستدراجی : شیطانی شعبدہ بازی * زجاجی : شیشے کا بنا ہوا * گلشن افروزی : باغبانی * مائل بہ تاراجی : بربادی کی طرف * پیرہن : لباس * ملگجی : بوسیدہ سا

گردشِ دوراں نے یہ بھی دن دکھائے

Image
گردشِ دوراں نے یہ بھی دن دکھائے کہ تلاش کرتے ہیں ہم چمن کا راستہ جھیل چکے بہت سادہ پرکار لوگ ہم اب  کسی سے  رابطہ ہے ، نہ واسطہ خبر گرم  ہے کہ اب بہار کا راج ہو گا گل و بلبل  نے کیا ہے خود کو آراستہ شائستگی کی توقع  عبث ہے اُن  سے جن کا ظاہر ہے شر ، باطن ناشائستہ جو ہم سے ملاقات کے روادار نہ تھے ہم گئے ان کے در پہ با دِل نا خواستہ شاعر : ضیغم سلطان

رات ہو چکی ، یہ چاند کب نکلے گا

Image
رات ہو چکی ، یہ چاند کب نکلے گا ہر طرف اندھیرے چھائے  ہوئے ہیں ہنستے تھے ہم پہ جو لوگ، بزم میں وہ احباب اب منہ چھپائے ہوئے ہیں اشک شُوئی کے ڈھونگ مت کرو تم ہم تو غمِ دوراں کے ستائے ہوئے ہیں روزِ عید ہے ، سحابِ غم ہیں ہر سو گل و گلزار بھی مرجھائے ہوئے ہیں ان کے سائے سے بھی پرہیز ہے ہمیں یہ بھان متی ہم نےآزمائے ہوئے ہیں سوئے دشت چلئے اب تو، یہاں سب آستین میں سانپ سجائے ہوئے ہیں کیا پوچھتے ہو باعثِ خفگی ان کی آئینہ دکھایا ہے تو تلملائے ہوئے ہیں شاعر : ضیغم سلطان

صحنِ عالم میں دل نہیں لگتا اب

صحنِ عالم میں دل نہیں لگتا اب یہ کیسا اندھیرا  ہے بہاروں میں کیوں دیتے ہو صدا  جگنوؤں کو نہیں ہے وہ اپنے غمخواروں میں کیا ہوتا گر نہ کرتے تغافل ہم سے ہم بھی تھے ترے پرستاروں میں ساقی رختِ سفر باندھا بیٹھا ہے ہے خبر گرم آج مے خواروں میں مت پکارو اُس بتِ بیداد کو ورنہ چنوائے جاؤ گے تم دیواروں میں بھول جاؤ بعد از فتنہ کیشی کہ ہونگے ہم بھی تیرے یاوروں میں کیا کیا لعل غمِ جہاں نے لُوٹ لئے کئی فرہاد بکھرے کہساروں میں یاد گھر گھر لگی ہے اب قیس کی جو بھتکٹا پھرا  ریگ زاروں میں غارتِ چمن کا کیا پوچھتے ہو تم محافظوں کو دیکھا غداروں میں شاعر : ضیغم سلطان

بےرنگ، بےکیف زندگی ہو چلی ہے

بےرنگ ، بےکیف زندگی ہو چلی ہے بےنوریاں ہی ہیں اب نصیبوں میں کوئی  دشتِ حِرماں میں  کھو گیا کون بانسری بجاتا ہے کثیبوں میں آمد آمد ہے خزاں کی، خبر سن کے بےکلی ہی بےکلی ہے عندلیبوں میں ساقی کے نہ آنے سے دل ملول ہیں کیا رکھا ہے ان بےثمر تقریبوں میں محفلِ ناز میں ہم کب تک رہیں گے بحث چھڑی  ہے عبث رقیبوں میں شاعر : ضیغم سلطان

حُسامِ خون آشام کے نام

Image
روش روش خون کی ندیاں بہانے والے ترے کوچۀ دل پہ کھارے بادل برسیں شاعر : ضیغم سلطان

شعر

تلخیٔ حیات نے کر دیا ہے مضمحل اب شجرِ سایہ دار کی تلاش ہے شاعر : ضیغم سلطان

سوالیہ نشان

جواب دو، جواب دو، جواب دو کہاں ہو تم امیرِ شہر، جواب دو کس نے دریاۓ احمریں بہا دیئے کس نے لعل و یاقوت رول دیئے کس نے سر سبز شجر  توڑ دیئے کس نے  فاختہ کے پر نوچ دیئے جواب دو، جواب دو، جواب دو کہاں ہو تم امیرِ شہر، جواب دو کون ہے دشمنِ بہاراں  اس نگری کون ہے  خائفِ  نسائم اس نگری کون ہے قاتلِ جدلیات اس  نگری کون   ہے   دیوِ  تَعَدّی  اس نگری جواب دو، جواب دو، جواب دو کہاں ہو تم امیرِ شہر، جواب دو کسے ہے ڈر نرگس و سوسن سے کسے ہے خوف سرو و چمن سے کسے ہے مرگ تحریر و تقریر سے کسے ہے تکلیف عقل و فہم  سے جواب دو، جواب دو، جواب دو کہاں ہو تم امیرِ شہر، جواب دو کیسے شیطان ہوئے زور آور یہاں کیسے ظالم گلچیں ہیں آذاد یہاں کیسے کوہ قاف سے جن آئے یہاں کیسے کالے کھارے بادل آئے یہاں جواب دو،  جواب دو، جواب دو کہاں ہو تم امیرِ شہر، جواب دو کیوں حبس کا موسم طویل ہے کیوں   بوئے بارود چمن میں ہے کیوں ہر  گل ، ہر شجر ملول ہے کیوں بہاروں کو   دیس نکالا ہے جواب دو،  جواب دو، جواب دو کہاں ہو تم امی...

انہونیاں

کس ڈگر پہ لے آئی ہے زندگی ایسا کبھی سوچا تو نہیں تھا بہاریں ہم سے روٹھ جائیں گی ایسا کبھی سوچا تو نہیں تھا اٹھے گی کبھی غم کی آندھی ایسا کبھی سوچا تو نہیں تھا تیرے در سے دربدر ہوں گے ہم ایسا کبھی سوچا تو نہیں تھا نظریں پھیرے گا ہم سے ساقی ایسا کبھی سوچا تو نہیں تھا نیند آنکھ سے روٹھ جائے گی ایسا کبھی سوچا تو نہیں تھا بےکلی ہو گی ہر گھڑی دل کو ایسا کبھی سوچا تو نہیں تھا راکھ ہو جائیں گے سب خواب ایسا کبھی سوچا تو نہیں تھا شاعر : ضیغم سلطان

خون آشام بلائیں ہیں رقصاں

خون آشام بلائیں ہیں رقصاں دیارِ نور میں کب سورج آئے گا ہر فرعون کے لئے موسیٰ آیا ہے ضرور ہمارا مسیحا بھی آئے گا لائے ہو فِیل تو ہم کیوں ڈریں دیکھنا ، ابابیل کا جھنڈ آئے گا جس طاقت کا ہے تمھیں گھمنڈ یہ زورِ بازو کسی کام نہ آئے گا جب آہِ مظلوم عرش ہلا دے گی اس دن ہی تمھیں سمجھ آئے گا شاعر : ضیغم سلطان

نیروئے پاکستان کے نام

یزید کے شاگرد نمرود کے پجاری چنگیز کے حمایتی فرعون کے حواری ہٹلر کے جانشین بے رحم شکاری راون کے پروردہ ہر بات میں مکاری چانکیہ کی طرفدار ہے افسر شاہی ہماری شاعر : ضیغم سلطان

بہاروں سے جانے کب ملاقات ہو گی

بہاروں سے جانے کب ملاقات ہو گی خزاں ہمارا پیچھا چھوڑتی ہی نہیں خموشی سے رات کٹے گی اب کیسے یادیں ہمارا پیچھا چھوڑتی ہی نہیں گل اداس، بلبل بھی گیت بھول گئی راگنی ہمارا پیچھا چھوڑتی ہی نہیں خواب تھے ، خواب  و خیال  ہو گئے خلش ہمارا پیچھا چھوڑتی ہی نہیں پستے رہے ہم دیر و  حرم کے درمیان تکرار ہمارا پیچھا چھوڑتی ہی نہیں شاعر : ضیغم سلطان

گل کو کج فہمی ہے

گل کو کج فہمی ہے کہ یہ بہار دائمی ہے شاعر : ضیغم سلطان

نقشِ کہن مٹنے کو ہے۔

نقشِ کُہن مٹنے کو ہے غبارِ راہ چھٹنے کو ہے گُلزار پھر لہلہانے کو ہے بلبل پھر گنگنانے کو ہے زمانہ کروٹ بدلنے کو ہے نیروئے حاضر جلنے کو ہے آتش فشاں پھٹنے کو ہے فصیلِ قصر ڈھلنےکو ہے جو فصل کہ بوئی تم نے اس کا پھل پکنے کو ہے شاعر : ضیغم سلطان

عہدِ گلاب کب کا گزر چکا اور اب

  عہدِ گلاب کب کا گزر چکا اور اب یہ ویران موسم میرے دائیں بائیں ذرد آندھیاں لے گئی ہیں شادابیاں یہ بوستان کرے ھیں سائیں سائیں شورِ سلاسِل ہے مجھے راگ جیسا تمھیں لگتا ہے تو لگے کائیں کائیں قدم لیتا تھا جو ہمارے شب و روز اب وہ بھی کہتا ہے جائیں جائیں ریزہ ریزہ ہستی اور دل مضطر ہے اور یہ حکم کہ مسکائیں مسکائیں شاعر : ضیغم سلطان

بہارذادے چمن سے بچھڑ گئے ہیں

 بہارذادے چمن سے بچھڑ گئے ہیں خزاں نے پور پور زخمی کر دیا ہے بلبل ہے جاں بلب اور گل تِشنہ لب تتلی کو موت سے ہمکنار کر دیا ہے صبح بھی اب روٹھی روٹھی سی پل پل جیون کو بوجھل کر دیا ہے ذرد آندھیوں میں ہے بوستانِ دل چرخِ فلک نے کیا سے کیا کر دیا ہے کھائے دھوکے تو پھر سمجھے ہیں دل و دماغ کو جدا جدا کر دیا ہے تند ہوا میں رہیں سینہ سپر تتلیاں خلق نے ظلمت میں کمال کر دیا ہے شاعر : ضیغم سلطان

حیات نذرِ خزاں ہوئی اب

 حیات نذرِ خزاں ہوئی اب بہاروں کو ہم پکارتے رہے گرہن طاری رہا دیارِ دل پہ نجم و قمر کو ہم بلاتے رہے یہ رات بھی گزر جائے گی  دل کو دلاسے ہم دلاتے رہے پاش پاش ہے قلب و جگر احوالِ دل ہم چھپاتے رہے زہر بھرا پیالہ تھا لبوں پہ بےاختیار ہم مسکراتے رہے بےچراغی اور بےبسی تھی مقتل خون سے سجاتے رہے میں منصور ہوں, اے اظلم جو سچ ہے وہ ہم بتاتے رہے شاعر : ضیغم سلطان

دم گھٹتا ہے

 دم گھٹتا ہے دل کٹتا ہے جگر پھٹتا ہے کوبکو گرد ہے چہرہ ذرد ہے ہر پل درد ھے صبح خموش شام بےہوش رات روپوش عہدِ خزاں ہے گل بےجاں ہے بلبل ژیاں ہے دکھ لاحق ہے الزام ناحق ہے اللہ برحق ہے شاعر : ضیغم سلطان

رنگوں کی چاہت میں

 رنگوں کی چاہت میں در در گھومے اب تو جبیں لہو رنگ ہو گئی ہماری دشت بھی کچھ بگاڑ نہ سکے ہمارا خموشی میں گزری تمام عمر ہماری پابندیاں، قدغن، قفس اور بندشیں برباد ہو گئیں سب خواہشیں ہماری اب خواب ہمارے خراب حال ہوئے کھو گئیں سب تعبیریں بھی ہماری بوئے گل روتی ہے ، بہار افسردہ ہے تربت ہوگی صحنِ گلشن میں ہماری شاعر : ضیغم سلطان

اس برباد چمن سے ہمیں دور لے چلو

 اس برباد چمن سے ہمیں دور لے چلو اے بہارو ! تم سے دل اداس ہے ہمارا غنچے سوکھ گئے ، پتے بھی ذرد ہیں گیلی مٹی کی مہک تو حق ہے ہمارا تھے جن کے لئے ہم باعثِ عار و ننگ ان کی محفل میں اب تذکرہ ہے ہمارا سیاہ رنگ دیکھ لئے ہم نے جہان کے اس بستی میں گزارا مشکل ہے ہمارا مسیحا کے منتظر ہم کب تلک رہتے یہ نطمیں، یہ شاعری مُداوا ہے ہمارا غمِ گیتی ہے درپیش ہمیں ، کیا کریں نہ دِل جُو، نہ کوئی غمگسار ہے ہمارا قسمت کا لکھا سر آنکھوں پہ میرے پار کرنا ہے دریا ، یہ امتحان ہے ہمارا شاعر : ضیغم سلطان

ساگر تو پیاسا رہ گیا جہاں میں

 ساگر تو پیاسا رہ گیا جہاں میں دشت و  بیاباں میں  بہار آئی ہے نہ وہ دن ہیں اور نہ وہ رات مگر بے جان دل میں رمق نظر آئی ہے   سنو شہر والو، ہے دورِ زباں بندی کنول بردار کی پُرنم صدا آئی ہے خواب نہ دیکھو اس بستی میں ہر شاخ , ہر کلی پر خزاں آئی ہے دل ظلمت میں گِھر گیا جب سے اس کے  جانے کی گھڑی  آئی ہے موسم اداس ہے ساقی, سبو لاؤ آج دل کی یاد  بےاختیار  آئی ہے دنیا دریا کی منجدھار ہے دوستو مجھے یہ بات اب سمجھ آئی ہے شاعر : ضیغم سلطان

کہانی پاکستان کی

 "کہانی پاکستان کی" اک قصہ سنو کچھ لوگوں کا یہ خواب تھا کچھ لوگوں کا اپنی زمیں اور ہو اپنا آسماں اپنا گھر ہو اور ہو اپنا سائباں ایک روشن صبح کا ظہور ہوا اعلان بہاراں بہ لحن زبور ہوا کئی خواب تھے آنکھوں میں کئی شیطان تھے گھاتوں میں خون آشام گِدھ تھے چار سُو کرب و بلائیں تھیں چار سو ہزار ہا دریائے احمری پار کئے سپوت مثلِ یاقوت نثار کئے وقت گزرا مگر وقت نہ پلٹا چیڑ و چنار کا جنگل رہا جلتا بہار چہرہ چھپائے روتی رہی خزاں کُو بکُو شور کرتی رہی اہلِ حق زہر کے سزاوار ہوئے منصف ہمارے بے اختیار ہوئے کاذب باوقار و معتبر ٹھہرے راست گوئی پہ پہرے ٹھہرے گدھا راجہ ہوا ، گِدھ محافظ ہمارا ، تمھارا اب اللہ حافظ ہے تمھارا تخت و تاج نام کو زمانہ حضورِ کبریا ہے دعا گو مہکے سدا یہ سبز چمن ہمارا جنتِ شداد تباہ ہوۓ اے خدا ھو امن کا دور قائم اے خدا رہے نظام عدل دائم اے خدا  شاعر : ضیغم سلطان

ویرانی چمن کی پوچھ رہی ہے

 ویرانی چمن کی پوچھ رہی ہے گلابوں کو آواز کیوں نہیں دیتے سنو! بہاریں دہائی دے رہی ہیں تتلی کو رہائی کیوں نہیں دیتے بلبل قید میں اور پھول تنہا ہے مجھے حوصلہ کیوں نہیں دیتے جگنو کا افسانہ تو سنا سب نے  شمع کو بجھا کیوں نہیں دیتے ہلکا کر لو تم بھی ٹوکرا غم کا  یہ بوجھ بانٹ کیوں نہیں دیتے شاعر : ضیغم سلطان

کب بہار راج ہو گا وطن میں اور

 کب بہار راج ہو گا وطن میں اور گلچیں کو چمن سے نکالا جائے گا کب چاند، تارے آذاد ہوں گے اور سورج کے دم سے اندھیرا جائے گا کب ملے گا ساقی کو انصاف اور زاہد سے جواب طلب کیا جائے گا کب باغ میں کوئل کوکے گی اور کوے کو کہیں دور اڑایا جائے گا کب گلشن میں رونق آئے گی اور مالی کو نیند سے جگایا جائے گا شاعر : ضیغم سلطان

آگ برپا ہے ہر طرف چمن میں

 آگ برپا ہے ہر طرف چمن میں لہو رنگ ہے ہر شاخ چمن میں گل اداس ، بہار کوسوں  دور ذرد سی ویرانی ہے گلشن میں آنکھ لگ جائے دو گھڑی  بس رات گزری اسی اک جتن میں کل صبح اک خواب دیکھا ہے کئی سرخ کانٹے ہیں بدن میں سنگ چُور ہیں, یہ بستی والے ماہر ہیں دل توڑنے کے فن میں خوش لباسوں پہ  کیا دور آیا سو سو پیوند لگے دامن  میں دشمن بن گئے وہ دوست بھی کھاتے تھے جو ایک برتن  میں ایک بوڑھا نِیم غم سے مر گیا چڑیاں روتی رہیں صحن میں سب بھول جائیں گے غم اپنے رات گائے گی  جب جشن میں ظلمتوں کے  اس دور  میں ہم امید  دیکھتے ہیں خِرمن  میں ناامید مت ہو ، زرخیز ہے مٹی گل بھی  کھلیں گے وطن میں شاعر : ضیغم سلطان

نیم، برگد اور پیپل یاد آتے ہیں۔

 نیم ، برگد اور  پیپل یاد آتے ہیں کنکریٹ کے جنگل میں  بیٹھ کے ساقی اور دورِ  سبو یاد  آتے ہیں زاہد کی خشک بزم میں بیٹھ کے دیپ، جگنو اور تارے یاد آتے ہیں ظلمتوں کے سیاہی میں بیٹھ کے قہقہے، ہنستے چہرے یاد آتے ہیں اجنبی اداس راہوں میں بیٹھ کے عید، تہوار اور جشن یاد آتے ہیں غمِ روزگار کے پہلو میں بیٹھ کے اداس غزلیں اور گیت یاد آتے ہیں گرتی دیوار کے سائے میں بیٹھ کے حلوے اور مربہ جات یاد آتے ہیں ماہر طبیب کے دفتر میں بیٹھ کے شاعر : ضیغم سلطان

کرب و بلا

 رزم و بزم یا سفر و حضر دورِ کہن یا ہو عہدِ حاضر صبرِ حسینؓ کا چرچا رہا عَلمِ حق ہمیشہ بلند رہا یزید و شمر تو بےثمر رہا اور حسینیؓ قافلہ امر رہا شاہ زادی تھی تشنہ لب مردِ جری بازو کٹواتا رہا جاں بہ لب وہ ننھی جان عدو تیر و سناں چلاتا رہا معرکۂ حق و باطل تھا مومن سینہ سپر لڑتا رہا جلے خیمے، شامِ غریباں بے ردا، بے سر و ساماں ظلمت اور آہ و فغاں زرد آسماں,زمانہ حیراں مگر کربلا کا ہی سبق ہے فاتح وہ جو متوکل رہا شاعر : ضیغم سلطان

آندھیوں کی ذد میں

 آندھیوں کی ذد میں آئے ہیں جب سے ہم گل بھی بے رنگ ہوئے جگنو بھی بےنور ہوئے دل بھی بوجھل ہوئے سانس بھی ساکن ہوئے چاند بھی دور ہوئے چکور بھی اداس ہوئے بلبل بھی خموش ہوئے گدھ بھی آذاد ہوئے آندھیوں کی ذد میں آئے ہیں جب سے ہم ناخدا بھی سوئے ہوئے پتوار بھی ٹوٹے ہوئے خواب بھی کرچی ہوئے گلشن بھی ذرد ہوئے نجوم بھی کھوئے ہوئے بےثمر بھی شجر ہوئے گلزار بھی پرخار ہوئے خود سے ہم بےزار ہوئے آندھیوں کی ذد میں آئے ہیں جب سے ہم ... شاعر : ضیغم سلطان

زیست کے ہر موڑ پہ

 زیست کے ہر ایک موڑ پہ خزاں ملی بہار کھو گئی، فقط خاکِ سیاہ ملی کالی گھٹائیں گھورتی  ہیں ہر سمے مقدر میں  بس خس و خاشاک ملی حیات محشر زار ہوئی، زار زار روئے ہیروں کی جستجو  میں راکھ  ملی دیپ گُل ہو گئے اور سورج ڈوب گئے ہر  رات خواب میں صرف  رات ملی بزم  سے کنارا  کر لیا جب  دیکھا کہ ہم سے بوئے گل جب ملی، بےزار ملی بعد از زوالِ گلچیں، گلشن کِھل اٹھا جگنو، تتلی، گُل سے بلبل رو کے ملی دورِ ناامیدی ہے ، خواہش جرم ہوئی اس بستی میں رہنے کی یہ سزا ملی شاعر : ضیغم سلطان

آہِ سبزہ و گل سے ڈر باغباں

آہِ سبزہ و گُل سے ڈر باغباں بےزباں ہے یہ، بے پر تو نہیں بیٹھے سرِراہ تو ہیں اعتراض شارع عام ہے تیرا در تو نہیں یہ پابندی، یہ بندش، یہ جبر کمزور ہیں ، نوالۂ تر تو نہیں بیاں کر دوں اَشراف کا اصل اس میں کچھ شر تو نہیں ؟ گر جائے گی یہ فصیلِ ظلمت یہ تقدیر ہے، کوئی بڑ تو نہیں شاعر : ضیغم سلطان x

کانچ

ٹوٹے کانچ سے پوچھا اک دن تم اس حال میں کیسے پہنچے تم کرچی کرچی ریزہ ریزہ تم کیسا محسوس کرتے ہو  سن کے میری بات، کہنے لگا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوں میں بکھرا بکھرا ہوں چھلنی چھلنی ہوں لیکن خوش ہوں کہ اب کسی کو مجھ سے امید نہیں جھوٹے دلاسے دے کے دل پہ اک بوجھ تھا۔ ڈھرام سے گرا تو لگا کہ دل ہلکا پھلکا ہو گیا کوئی بوجھ ہٹ گیا میں آذاد ہو گیا شاعر : ضیغم سلطان

آؤ جگنوؤں کی بات کریں

 آؤ جگنوؤں کی بات کریں جنگوں میں کیا رکھا ہے آؤ رنگوں کی بات کریں دنگوں میں کیا رکھا ہے آؤ خوشیوں کی بات کریں رنجشوں میں کیا رکھا ہے آؤ آبادیوں کی بات کریں بربادیوں میں کیا رکھا ہے آؤ مسافتوں کی بات کریں ساحلوں میں کیا رکھا ہے شاعر : ضیغم سلطان

یہ کیا منظر ہے میرے سامنے

کوئی بھوک سے نڈھال ہے کوئی خوشی سے نہال ہے یہ کیا منظر ہے میرے سامنے اِس پار اور دنیا آباد ہے اُس پار یہ دنیا برباد ہے یہ کیا منظر ہے میرے سامنے کچھ سپنے سہانے ہیں کچھ ارمان پرانے ہیں یہ کیا منظر ہے میرے سامنے کہیں روشن مینار ہیں کہیں پراسرار غار ہیں یہ کیا منظر ہے میرے سامنے کہیں قدم قدم باغ ہیں کہیں جا بجا داغ ہیں یہ کیا منظر ہے میرے سامنے شاعر : ضیغم سلطان

دشت میں بھی آئے گی اک روز بہار

دشت میں بھی آئے گی اک روز بہار یہ آنگن بھی گلشن سے کم نہ ہو گا چھٹ جائیں گے سحابِ غم دل سے یہ عالم بھی جنت سے کم نہ ہو گا گلچیں چاہے تو اپنی طاقت آزما لے یہ گُل بھی سُول سے کم نہ ہو گا پروانے کے مقدر میں جلنا رقم ہے یہ درد بھی دوا سے کم نہ ہو گا لاؤ گے جب شمس و قمر سرِ بازار یہ تماشا بھی کسی سے کم نہ ہوگا شاعر : ضیغم سلطان