بہاروں سے ان بن ہے اپنی آج کل

بہاروں سے ان بن ہے اپنی آج کل
یہ اکیلا چاند کیوں اتنا راجی ہے
کیا پوچھتے ہو، حالات کا ہم سے
یہ عہدِ ظَلم ہے، یہ دور نِراجی ہے
جب اپنے حق کے لئے آواز اٹھائی
حکم آیا کہ زباں ردازی اکاجی ہے
یہ مت جانو کہ  خدائی انجان ہے
یہ ترا قدم قدم ہی اِستدراجی ہے
آگ لگاؤ گے جب کسی آشیانے کو
مت بھولو تمھارا قصر زُجاجی ہے
کب تک کرے کوئی گلشن افروزی
جب گُل ہی ہو مائل بہ تاراجی ہے
سج دھج کے آئے گی صبح روشن
اداسی ہے ، پیرہنِ شام ملگجی ہے

شاعر : ضیغم سلطان

معنی :
* راجی : پُر امید
* ظَلم : گمراہی
* نراجی : انتشاری
* اکاجی : نقصان دہ
* اِستدراجی : شیطانی شعبدہ بازی
* زجاجی : شیشے کا بنا ہوا
* گلشن افروزی : باغبانی
* مائل بہ تاراجی : بربادی کی طرف
* پیرہن : لباس
* ملگجی : بوسیدہ سا

Comments

Popular posts from this blog

سوالیہ نشان

لاہور سے آگے