ساگر تو پیاسا رہ گیا جہاں میں
ساگر تو پیاسا رہ گیا جہاں میں
دشت و بیاباں میں بہار آئی ہے
نہ وہ دن ہیں اور نہ وہ رات مگر
بے جان دل میں رمق نظر آئی ہے
سنو شہر والو، ہے دورِ زباں بندی
کنول بردار کی پُرنم صدا آئی ہے
خواب نہ دیکھو اس بستی میں
ہر شاخ , ہر کلی پر خزاں آئی ہے
دل ظلمت میں گِھر گیا جب سے
اس کے جانے کی گھڑی آئی ہے
موسم اداس ہے ساقی, سبو لاؤ
آج دل کی یاد بےاختیار آئی ہے
دنیا دریا کی منجدھار ہے دوستو
مجھے یہ بات اب سمجھ آئی ہے
شاعر : ضیغم سلطان
Comments
Post a Comment