حیات نذرِ خزاں ہوئی اب

 حیات نذرِ خزاں ہوئی اب

بہاروں کو ہم پکارتے رہے


گرہن طاری رہا دیارِ دل پہ

نجم و قمر کو ہم بلاتے رہے


یہ رات بھی گزر جائے گی 

دل کو دلاسے ہم دلاتے رہے


پاش پاش ہے قلب و جگر

احوالِ دل ہم چھپاتے رہے


زہر بھرا پیالہ تھا لبوں پہ

بےاختیار ہم مسکراتے رہے


بےچراغی اور بےبسی تھی

مقتل خون سے سجاتے رہے


میں منصور ہوں, اے اظلم

جو سچ ہے وہ ہم بتاتے رہے


شاعر : ضیغم سلطان

Comments

Popular posts from this blog

سوالیہ نشان

لاہور سے آگے

بہاروں سے ان بن ہے اپنی آج کل