خوشبوؤں میں بسا چمن چھوڑ آئے
خوشبوؤں میں بسا چمن چھوڑ آئے
کئی صندلی, گلابی خواب چھوڑ آئے
اندوہ نصیبی کا کیا پوچھتے ہو تم
اگتا سورج , چمکتا چاند چھوڑ آئے
مرتے جگنوؤں کو کون روئے گا یہاں
گلچیں باغ میں ردائے زرد چھوڑ آئے
منور تھا جن سے شہرِ دل اپنا، جب
وہ گئے، تو محفلِ بےچراغ چھوڑ آئے
جب صدائے دل کی شنوائی نہ ہوئی
پھر ہم اس بتِ بیداد کو چھوڑ آئے
Comments
Post a Comment