صحنِ عالم میں دل نہیں لگتا اب

صحنِ عالم میں دل نہیں لگتا اب
یہ کیسا اندھیرا  ہے بہاروں میں
کیوں دیتے ہو صدا  جگنوؤں کو
نہیں ہے وہ اپنے غمخواروں میں
کیا ہوتا گر نہ کرتے تغافل ہم سے
ہم بھی تھے ترے پرستاروں میں
ساقی رختِ سفر باندھا بیٹھا ہے
ہے خبر گرم آج مے خواروں میں
مت پکارو اُس بتِ بیداد کو ورنہ
چنوائے جاؤ گے تم دیواروں میں
بھول جاؤ بعد از فتنہ کیشی کہ
ہونگے ہم بھی تیرے یاوروں میں
کیا کیا لعل غمِ جہاں نے لُوٹ لئے
کئی فرہاد بکھرے کہساروں میں
یاد گھر گھر لگی ہے اب قیس کی
جو بھتکٹا پھرا  ریگ زاروں میں
غارتِ چمن کا کیا پوچھتے ہو تم
محافظوں کو دیکھا غداروں میں

شاعر : ضیغم سلطان

Comments

Popular posts from this blog

سوالیہ نشان

لاہور سے آگے

بہاروں سے ان بن ہے اپنی آج کل