عہدِ گلاب کب کا گزر چکا اور اب
عہدِ گلاب کب کا گزر چکا اور اب
یہ ویران موسم میرے دائیں بائیں
ذرد آندھیاں لے گئی ہیں شادابیاں
یہ بوستان کرے ھیں سائیں سائیں
شورِ سلاسِل ہے مجھے راگ جیسا
تمھیں لگتا ہے تو لگے کائیں کائیں
قدم لیتا تھا جو ہمارے شب و روز
اب وہ بھی کہتا ہے جائیں جائیں
ریزہ ریزہ ہستی اور دل مضطر ہے
اور یہ حکم کہ مسکائیں مسکائیں
شاعر : ضیغم سلطان
Comments
Post a Comment