نقشِ کہن مٹنے کو ہے۔

نقشِ کُہن مٹنے کو ہے
غبارِ راہ چھٹنے کو ہے
گُلزار پھر لہلہانے کو ہے
بلبل پھر گنگنانے کو ہے
زمانہ کروٹ بدلنے کو ہے
نیروئے حاضر جلنے کو ہے
آتش فشاں پھٹنے کو ہے
فصیلِ قصر ڈھلنےکو ہے
جو فصل کہ بوئی تم نے
اس کا پھل پکنے کو ہے

شاعر : ضیغم سلطان

Comments

Popular posts from this blog

سوالیہ نشان

لاہور سے آگے

بہاروں سے ان بن ہے اپنی آج کل