یہ کیا منظر ہے میرے سامنے

کوئی بھوک سے نڈھال ہے

کوئی خوشی سے نہال ہے

یہ کیا منظر ہے میرے سامنے


اِس پار اور دنیا آباد ہے

اُس پار یہ دنیا برباد ہے

یہ کیا منظر ہے میرے سامنے


کچھ سپنے سہانے ہیں

کچھ ارمان پرانے ہیں

یہ کیا منظر ہے میرے سامنے


کہیں روشن مینار ہیں

کہیں پراسرار غار ہیں

یہ کیا منظر ہے میرے سامنے


کہیں قدم قدم باغ ہیں

کہیں جا بجا داغ ہیں

یہ کیا منظر ہے میرے سامنے


شاعر : ضیغم سلطان

Comments

Popular posts from this blog

سوالیہ نشان

لاہور سے آگے

بہاروں سے ان بن ہے اپنی آج کل