جواب دو، جواب دو، جواب دو کہاں ہو تم امیرِ شہر، جواب دو کس نے دریاۓ احمریں بہا دیئے کس نے لعل و یاقوت رول دیئے کس نے سر سبز شجر توڑ دیئے کس نے فاختہ کے پر نوچ دیئے جواب دو، جواب دو، جواب دو کہاں ہو تم امیرِ شہر، جواب دو کون ہے دشمنِ بہاراں اس نگری کون ہے خائفِ نسائم اس نگری کون ہے قاتلِ جدلیات اس نگری کون ہے دیوِ تَعَدّی اس نگری جواب دو، جواب دو، جواب دو کہاں ہو تم امیرِ شہر، جواب دو کسے ہے ڈر نرگس و سوسن سے کسے ہے خوف سرو و چمن سے کسے ہے مرگ تحریر و تقریر سے کسے ہے تکلیف عقل و فہم سے جواب دو، جواب دو، جواب دو کہاں ہو تم امیرِ شہر، جواب دو کیسے شیطان ہوئے زور آور یہاں کیسے ظالم گلچیں ہیں آذاد یہاں کیسے کوہ قاف سے جن آئے یہاں کیسے کالے کھارے بادل آئے یہاں جواب دو، جواب دو، جواب دو کہاں ہو تم امیرِ شہر، جواب دو کیوں حبس کا موسم طویل ہے کیوں بوئے بارود چمن میں ہے کیوں ہر گل ، ہر شجر ملول ہے کیوں بہاروں کو دیس نکالا ہے جواب دو، جواب دو، جواب دو کہاں ہو تم امی...
"لاہور سے آگے" گرمی سے بےحال تھے حبس سے نڈھال تھے شمال سے یخ ہوا آئی ہم نے اک ترکیب لڑائی چلتے چلتے مری پہنچے چناروں کے دیس پہنچے وہاں بہار ہی بہار تھی اک ٹھنڈی آبشار تھی دیو قامت بلند پہاڑ تھے سبز شاداب اشجار تھے حسین وادیاں تھیں گہری کھائیاں تھیں فطرت سے روبرو ہوئے بوئے گل سے آشنا ہوئے مگر اک بات سچ ہے کہ لاہور لاہور ہے شاعر : ضیغم سلطان
بہاروں سے ان بن ہے اپنی آج کل یہ اکیلا چاند کیوں اتنا راجی ہے کیا پوچھتے ہو، حالات کا ہم سے یہ عہدِ ظَلم ہے، یہ دور نِراجی ہے جب اپنے حق کے لئے آواز اٹھائی حکم آیا کہ زباں ردازی اکاجی ہے یہ مت جانو کہ خدائی انجان ہے یہ ترا قدم قدم ہی اِستدراجی ہے آگ لگاؤ گے جب کسی آشیانے کو مت بھولو تمھارا قصر زُجاجی ہے کب تک کرے کوئی گلشن افروزی جب گُل ہی ہو مائل بہ تاراجی ہے سج دھج کے آئے گی صبح روشن اداسی ہے ، پیرہنِ شام ملگجی ہے شاعر : ضیغم سلطان معنی : * راجی : پُر امید * ظَلم : گمراہی * نراجی : انتشاری * اکاجی : نقصان دہ * اِستدراجی : شیطانی شعبدہ بازی * زجاجی : شیشے کا بنا ہوا * گلشن افروزی : باغبانی * مائل بہ تاراجی : بربادی کی طرف * پیرہن : لباس * ملگجی : بوسیدہ سا
Comments
Post a Comment