نیم، برگد اور پیپل یاد آتے ہیں۔

 نیم ، برگد اور  پیپل یاد آتے ہیں

کنکریٹ کے جنگل میں  بیٹھ کے

ساقی اور دورِ  سبو یاد  آتے ہیں

زاہد کی خشک بزم میں بیٹھ کے

دیپ، جگنو اور تارے یاد آتے ہیں

ظلمتوں کے سیاہی میں بیٹھ کے

قہقہے، ہنستے چہرے یاد آتے ہیں

اجنبی اداس راہوں میں بیٹھ کے

عید، تہوار اور جشن یاد آتے ہیں

غمِ روزگار کے پہلو میں بیٹھ کے

اداس غزلیں اور گیت یاد آتے ہیں

گرتی دیوار کے سائے میں بیٹھ کے

حلوے اور مربہ جات یاد آتے ہیں

ماہر طبیب کے دفتر میں بیٹھ کے

شاعر : ضیغم سلطان

Comments

Popular posts from this blog

سوالیہ نشان

لاہور سے آگے

بہاروں سے ان بن ہے اپنی آج کل