زیست کے ہر موڑ پہ

 زیست کے ہر ایک موڑ پہ خزاں ملی

بہار کھو گئی، فقط خاکِ سیاہ ملی

کالی گھٹائیں گھورتی  ہیں ہر سمے

مقدر میں  بس خس و خاشاک ملی

حیات محشر زار ہوئی، زار زار روئے

ہیروں کی جستجو  میں راکھ  ملی

دیپ گُل ہو گئے اور سورج ڈوب گئے

ہر  رات خواب میں صرف  رات ملی

بزم  سے کنارا  کر لیا جب  دیکھا کہ

ہم سے بوئے گل جب ملی، بےزار ملی

بعد از زوالِ گلچیں، گلشن کِھل اٹھا

جگنو، تتلی، گُل سے بلبل رو کے ملی

دورِ ناامیدی ہے ، خواہش جرم ہوئی

اس بستی میں رہنے کی یہ سزا ملی


شاعر : ضیغم سلطان

Comments

Popular posts from this blog

سوالیہ نشان

لاہور سے آگے

بہاروں سے ان بن ہے اپنی آج کل