رات ہو چکی ، یہ چاند کب نکلے گا
رات ہو چکی ، یہ چاند کب نکلے گا
ہر طرف اندھیرے چھائے ہوئے ہیں
ہنستے تھے ہم پہ جو لوگ، بزم میں
وہ احباب اب منہ چھپائے ہوئے ہیں
اشک شُوئی کے ڈھونگ مت کرو تم
ہم تو غمِ دوراں کے ستائے ہوئے ہیں
روزِ عید ہے ، سحابِ غم ہیں ہر سو
گل و گلزار بھی مرجھائے ہوئے ہیں
ان کے سائے سے بھی پرہیز ہے ہمیں
یہ بھان متی ہم نےآزمائے ہوئے ہیں
سوئے دشت چلئے اب تو، یہاں سب
آستین میں سانپ سجائے ہوئے ہیں
کیا پوچھتے ہو باعثِ خفگی ان کی
آئینہ دکھایا ہے تو تلملائے ہوئے ہیں
Comments
Post a Comment