آگ برپا ہے ہر طرف چمن میں

 آگ برپا ہے ہر طرف چمن میں

لہو رنگ ہے ہر شاخ چمن میں

گل اداس ، بہار کوسوں  دور

ذرد سی ویرانی ہے گلشن میں

آنکھ لگ جائے دو گھڑی  بس

رات گزری اسی اک جتن میں

کل صبح اک خواب دیکھا ہے

کئی سرخ کانٹے ہیں بدن میں

سنگ چُور ہیں, یہ بستی والے

ماہر ہیں دل توڑنے کے فن میں

خوش لباسوں پہ  کیا دور آیا

سو سو پیوند لگے دامن  میں

دشمن بن گئے وہ دوست بھی

کھاتے تھے جو ایک برتن  میں

ایک بوڑھا نِیم غم سے مر گیا

چڑیاں روتی رہیں صحن میں

سب بھول جائیں گے غم اپنے

رات گائے گی  جب جشن میں

ظلمتوں کے  اس دور  میں ہم

امید  دیکھتے ہیں خِرمن  میں

ناامید مت ہو ، زرخیز ہے مٹی

گل بھی  کھلیں گے وطن میں


شاعر : ضیغم سلطان

Comments

Popular posts from this blog

سوالیہ نشان

لاہور سے آگے

بہاروں سے ان بن ہے اپنی آج کل