Posts

Showing posts from August, 2024

اس برباد چمن سے ہمیں دور لے چلو

 اس برباد چمن سے ہمیں دور لے چلو اے بہارو ! تم سے دل اداس ہے ہمارا غنچے سوکھ گئے ، پتے بھی ذرد ہیں گیلی مٹی کی مہک تو حق ہے ہمارا تھے جن کے لئے ہم باعثِ عار و ننگ ان کی محفل میں اب تذکرہ ہے ہمارا سیاہ رنگ دیکھ لئے ہم نے جہان کے اس بستی میں گزارا مشکل ہے ہمارا مسیحا کے منتظر ہم کب تلک رہتے یہ نطمیں، یہ شاعری مُداوا ہے ہمارا غمِ گیتی ہے درپیش ہمیں ، کیا کریں نہ دِل جُو، نہ کوئی غمگسار ہے ہمارا قسمت کا لکھا سر آنکھوں پہ میرے پار کرنا ہے دریا ، یہ امتحان ہے ہمارا شاعر : ضیغم سلطان

ساگر تو پیاسا رہ گیا جہاں میں

 ساگر تو پیاسا رہ گیا جہاں میں دشت و  بیاباں میں  بہار آئی ہے نہ وہ دن ہیں اور نہ وہ رات مگر بے جان دل میں رمق نظر آئی ہے   سنو شہر والو، ہے دورِ زباں بندی کنول بردار کی پُرنم صدا آئی ہے خواب نہ دیکھو اس بستی میں ہر شاخ , ہر کلی پر خزاں آئی ہے دل ظلمت میں گِھر گیا جب سے اس کے  جانے کی گھڑی  آئی ہے موسم اداس ہے ساقی, سبو لاؤ آج دل کی یاد  بےاختیار  آئی ہے دنیا دریا کی منجدھار ہے دوستو مجھے یہ بات اب سمجھ آئی ہے شاعر : ضیغم سلطان

کہانی پاکستان کی

 "کہانی پاکستان کی" اک قصہ سنو کچھ لوگوں کا یہ خواب تھا کچھ لوگوں کا اپنی زمیں اور ہو اپنا آسماں اپنا گھر ہو اور ہو اپنا سائباں ایک روشن صبح کا ظہور ہوا اعلان بہاراں بہ لحن زبور ہوا کئی خواب تھے آنکھوں میں کئی شیطان تھے گھاتوں میں خون آشام گِدھ تھے چار سُو کرب و بلائیں تھیں چار سو ہزار ہا دریائے احمری پار کئے سپوت مثلِ یاقوت نثار کئے وقت گزرا مگر وقت نہ پلٹا چیڑ و چنار کا جنگل رہا جلتا بہار چہرہ چھپائے روتی رہی خزاں کُو بکُو شور کرتی رہی اہلِ حق زہر کے سزاوار ہوئے منصف ہمارے بے اختیار ہوئے کاذب باوقار و معتبر ٹھہرے راست گوئی پہ پہرے ٹھہرے گدھا راجہ ہوا ، گِدھ محافظ ہمارا ، تمھارا اب اللہ حافظ ہے تمھارا تخت و تاج نام کو زمانہ حضورِ کبریا ہے دعا گو مہکے سدا یہ سبز چمن ہمارا جنتِ شداد تباہ ہوۓ اے خدا ھو امن کا دور قائم اے خدا رہے نظام عدل دائم اے خدا  شاعر : ضیغم سلطان

ویرانی چمن کی پوچھ رہی ہے

 ویرانی چمن کی پوچھ رہی ہے گلابوں کو آواز کیوں نہیں دیتے سنو! بہاریں دہائی دے رہی ہیں تتلی کو رہائی کیوں نہیں دیتے بلبل قید میں اور پھول تنہا ہے مجھے حوصلہ کیوں نہیں دیتے جگنو کا افسانہ تو سنا سب نے  شمع کو بجھا کیوں نہیں دیتے ہلکا کر لو تم بھی ٹوکرا غم کا  یہ بوجھ بانٹ کیوں نہیں دیتے شاعر : ضیغم سلطان

کب بہار راج ہو گا وطن میں اور

 کب بہار راج ہو گا وطن میں اور گلچیں کو چمن سے نکالا جائے گا کب چاند، تارے آذاد ہوں گے اور سورج کے دم سے اندھیرا جائے گا کب ملے گا ساقی کو انصاف اور زاہد سے جواب طلب کیا جائے گا کب باغ میں کوئل کوکے گی اور کوے کو کہیں دور اڑایا جائے گا کب گلشن میں رونق آئے گی اور مالی کو نیند سے جگایا جائے گا شاعر : ضیغم سلطان

آگ برپا ہے ہر طرف چمن میں

 آگ برپا ہے ہر طرف چمن میں لہو رنگ ہے ہر شاخ چمن میں گل اداس ، بہار کوسوں  دور ذرد سی ویرانی ہے گلشن میں آنکھ لگ جائے دو گھڑی  بس رات گزری اسی اک جتن میں کل صبح اک خواب دیکھا ہے کئی سرخ کانٹے ہیں بدن میں سنگ چُور ہیں, یہ بستی والے ماہر ہیں دل توڑنے کے فن میں خوش لباسوں پہ  کیا دور آیا سو سو پیوند لگے دامن  میں دشمن بن گئے وہ دوست بھی کھاتے تھے جو ایک برتن  میں ایک بوڑھا نِیم غم سے مر گیا چڑیاں روتی رہیں صحن میں سب بھول جائیں گے غم اپنے رات گائے گی  جب جشن میں ظلمتوں کے  اس دور  میں ہم امید  دیکھتے ہیں خِرمن  میں ناامید مت ہو ، زرخیز ہے مٹی گل بھی  کھلیں گے وطن میں شاعر : ضیغم سلطان