Posts

Showing posts from December, 2024

صحنِ عالم میں دل نہیں لگتا اب

صحنِ عالم میں دل نہیں لگتا اب یہ کیسا اندھیرا  ہے بہاروں میں کیوں دیتے ہو صدا  جگنوؤں کو نہیں ہے وہ اپنے غمخواروں میں کیا ہوتا گر نہ کرتے تغافل ہم سے ہم بھی تھے ترے پرستاروں میں ساقی رختِ سفر باندھا بیٹھا ہے ہے خبر گرم آج مے خواروں میں مت پکارو اُس بتِ بیداد کو ورنہ چنوائے جاؤ گے تم دیواروں میں بھول جاؤ بعد از فتنہ کیشی کہ ہونگے ہم بھی تیرے یاوروں میں کیا کیا لعل غمِ جہاں نے لُوٹ لئے کئی فرہاد بکھرے کہساروں میں یاد گھر گھر لگی ہے اب قیس کی جو بھتکٹا پھرا  ریگ زاروں میں غارتِ چمن کا کیا پوچھتے ہو تم محافظوں کو دیکھا غداروں میں شاعر : ضیغم سلطان

بےرنگ، بےکیف زندگی ہو چلی ہے

بےرنگ ، بےکیف زندگی ہو چلی ہے بےنوریاں ہی ہیں اب نصیبوں میں کوئی  دشتِ حِرماں میں  کھو گیا کون بانسری بجاتا ہے کثیبوں میں آمد آمد ہے خزاں کی، خبر سن کے بےکلی ہی بےکلی ہے عندلیبوں میں ساقی کے نہ آنے سے دل ملول ہیں کیا رکھا ہے ان بےثمر تقریبوں میں محفلِ ناز میں ہم کب تک رہیں گے بحث چھڑی  ہے عبث رقیبوں میں شاعر : ضیغم سلطان

حُسامِ خون آشام کے نام

Image
روش روش خون کی ندیاں بہانے والے ترے کوچۀ دل پہ کھارے بادل برسیں شاعر : ضیغم سلطان

شعر

تلخیٔ حیات نے کر دیا ہے مضمحل اب شجرِ سایہ دار کی تلاش ہے شاعر : ضیغم سلطان

سوالیہ نشان

جواب دو، جواب دو، جواب دو کہاں ہو تم امیرِ شہر، جواب دو کس نے دریاۓ احمریں بہا دیئے کس نے لعل و یاقوت رول دیئے کس نے سر سبز شجر  توڑ دیئے کس نے  فاختہ کے پر نوچ دیئے جواب دو، جواب دو، جواب دو کہاں ہو تم امیرِ شہر، جواب دو کون ہے دشمنِ بہاراں  اس نگری کون ہے  خائفِ  نسائم اس نگری کون ہے قاتلِ جدلیات اس  نگری کون   ہے   دیوِ  تَعَدّی  اس نگری جواب دو، جواب دو، جواب دو کہاں ہو تم امیرِ شہر، جواب دو کسے ہے ڈر نرگس و سوسن سے کسے ہے خوف سرو و چمن سے کسے ہے مرگ تحریر و تقریر سے کسے ہے تکلیف عقل و فہم  سے جواب دو، جواب دو، جواب دو کہاں ہو تم امیرِ شہر، جواب دو کیسے شیطان ہوئے زور آور یہاں کیسے ظالم گلچیں ہیں آذاد یہاں کیسے کوہ قاف سے جن آئے یہاں کیسے کالے کھارے بادل آئے یہاں جواب دو،  جواب دو، جواب دو کہاں ہو تم امیرِ شہر، جواب دو کیوں حبس کا موسم طویل ہے کیوں   بوئے بارود چمن میں ہے کیوں ہر  گل ، ہر شجر ملول ہے کیوں بہاروں کو   دیس نکالا ہے جواب دو،  جواب دو، جواب دو کہاں ہو تم امی...

انہونیاں

کس ڈگر پہ لے آئی ہے زندگی ایسا کبھی سوچا تو نہیں تھا بہاریں ہم سے روٹھ جائیں گی ایسا کبھی سوچا تو نہیں تھا اٹھے گی کبھی غم کی آندھی ایسا کبھی سوچا تو نہیں تھا تیرے در سے دربدر ہوں گے ہم ایسا کبھی سوچا تو نہیں تھا نظریں پھیرے گا ہم سے ساقی ایسا کبھی سوچا تو نہیں تھا نیند آنکھ سے روٹھ جائے گی ایسا کبھی سوچا تو نہیں تھا بےکلی ہو گی ہر گھڑی دل کو ایسا کبھی سوچا تو نہیں تھا راکھ ہو جائیں گے سب خواب ایسا کبھی سوچا تو نہیں تھا شاعر : ضیغم سلطان