Posts

Showing posts from November, 2024

خون آشام بلائیں ہیں رقصاں

خون آشام بلائیں ہیں رقصاں دیارِ نور میں کب سورج آئے گا ہر فرعون کے لئے موسیٰ آیا ہے ضرور ہمارا مسیحا بھی آئے گا لائے ہو فِیل تو ہم کیوں ڈریں دیکھنا ، ابابیل کا جھنڈ آئے گا جس طاقت کا ہے تمھیں گھمنڈ یہ زورِ بازو کسی کام نہ آئے گا جب آہِ مظلوم عرش ہلا دے گی اس دن ہی تمھیں سمجھ آئے گا شاعر : ضیغم سلطان

نیروئے پاکستان کے نام

یزید کے شاگرد نمرود کے پجاری چنگیز کے حمایتی فرعون کے حواری ہٹلر کے جانشین بے رحم شکاری راون کے پروردہ ہر بات میں مکاری چانکیہ کی طرفدار ہے افسر شاہی ہماری شاعر : ضیغم سلطان

بہاروں سے جانے کب ملاقات ہو گی

بہاروں سے جانے کب ملاقات ہو گی خزاں ہمارا پیچھا چھوڑتی ہی نہیں خموشی سے رات کٹے گی اب کیسے یادیں ہمارا پیچھا چھوڑتی ہی نہیں گل اداس، بلبل بھی گیت بھول گئی راگنی ہمارا پیچھا چھوڑتی ہی نہیں خواب تھے ، خواب  و خیال  ہو گئے خلش ہمارا پیچھا چھوڑتی ہی نہیں پستے رہے ہم دیر و  حرم کے درمیان تکرار ہمارا پیچھا چھوڑتی ہی نہیں شاعر : ضیغم سلطان

گل کو کج فہمی ہے

گل کو کج فہمی ہے کہ یہ بہار دائمی ہے شاعر : ضیغم سلطان

نقشِ کہن مٹنے کو ہے۔

نقشِ کُہن مٹنے کو ہے غبارِ راہ چھٹنے کو ہے گُلزار پھر لہلہانے کو ہے بلبل پھر گنگنانے کو ہے زمانہ کروٹ بدلنے کو ہے نیروئے حاضر جلنے کو ہے آتش فشاں پھٹنے کو ہے فصیلِ قصر ڈھلنےکو ہے جو فصل کہ بوئی تم نے اس کا پھل پکنے کو ہے شاعر : ضیغم سلطان