Posts

Showing posts from January, 2025

شدتِ غم سے سیاہ ہوئے گل و لالہ

Image
شدتِ غم سے سیاہ ہوئے گل و لالہ بلبل و مینا بھی اڑان بھرنے کو ہے اُلو ہی اب بولیں گے عہدِ بہار میں اب ہنرِ چمن بندی بھی مرنے کو ہے سرو و صنوبر کے قصے کیا سنائیں ان پر خزاؤں کا عذاب اترنے کو ہے تکان سے چُور، چکور کو چاند بھولا کہ زمانے میں سو کام کرنے کو ہے ہر سُو خاموشی طاری ہے، لگتا ہے شیرازۀ نخلِ ہستی بکھرنے کو ہے شاعر : ضیغم سلطان

بہاروں سے ان بن ہے اپنی آج کل

Image
بہاروں سے ان بن ہے اپنی آج کل یہ اکیلا چاند کیوں اتنا راجی ہے کیا پوچھتے ہو، حالات کا ہم سے یہ عہدِ ظَلم ہے، یہ دور نِراجی ہے جب اپنے حق کے لئے آواز اٹھائی حکم آیا کہ زباں ردازی اکاجی ہے یہ مت جانو کہ  خدائی انجان ہے یہ ترا قدم قدم ہی اِستدراجی ہے آگ لگاؤ گے جب کسی آشیانے کو مت بھولو تمھارا قصر زُجاجی ہے کب تک کرے کوئی گلشن افروزی جب گُل ہی ہو مائل بہ تاراجی ہے سج دھج کے آئے گی صبح روشن اداسی ہے ، پیرہنِ شام ملگجی ہے شاعر : ضیغم سلطان معنی : * راجی : پُر امید * ظَلم : گمراہی * نراجی : انتشاری * اکاجی : نقصان دہ * اِستدراجی : شیطانی شعبدہ بازی * زجاجی : شیشے کا بنا ہوا * گلشن افروزی : باغبانی * مائل بہ تاراجی : بربادی کی طرف * پیرہن : لباس * ملگجی : بوسیدہ سا

گردشِ دوراں نے یہ بھی دن دکھائے

Image
گردشِ دوراں نے یہ بھی دن دکھائے کہ تلاش کرتے ہیں ہم چمن کا راستہ جھیل چکے بہت سادہ پرکار لوگ ہم اب  کسی سے  رابطہ ہے ، نہ واسطہ خبر گرم  ہے کہ اب بہار کا راج ہو گا گل و بلبل  نے کیا ہے خود کو آراستہ شائستگی کی توقع  عبث ہے اُن  سے جن کا ظاہر ہے شر ، باطن ناشائستہ جو ہم سے ملاقات کے روادار نہ تھے ہم گئے ان کے در پہ با دِل نا خواستہ شاعر : ضیغم سلطان

رات ہو چکی ، یہ چاند کب نکلے گا

Image
رات ہو چکی ، یہ چاند کب نکلے گا ہر طرف اندھیرے چھائے  ہوئے ہیں ہنستے تھے ہم پہ جو لوگ، بزم میں وہ احباب اب منہ چھپائے ہوئے ہیں اشک شُوئی کے ڈھونگ مت کرو تم ہم تو غمِ دوراں کے ستائے ہوئے ہیں روزِ عید ہے ، سحابِ غم ہیں ہر سو گل و گلزار بھی مرجھائے ہوئے ہیں ان کے سائے سے بھی پرہیز ہے ہمیں یہ بھان متی ہم نےآزمائے ہوئے ہیں سوئے دشت چلئے اب تو، یہاں سب آستین میں سانپ سجائے ہوئے ہیں کیا پوچھتے ہو باعثِ خفگی ان کی آئینہ دکھایا ہے تو تلملائے ہوئے ہیں شاعر : ضیغم سلطان