Posts

Showing posts from October, 2024

عہدِ گلاب کب کا گزر چکا اور اب

  عہدِ گلاب کب کا گزر چکا اور اب یہ ویران موسم میرے دائیں بائیں ذرد آندھیاں لے گئی ہیں شادابیاں یہ بوستان کرے ھیں سائیں سائیں شورِ سلاسِل ہے مجھے راگ جیسا تمھیں لگتا ہے تو لگے کائیں کائیں قدم لیتا تھا جو ہمارے شب و روز اب وہ بھی کہتا ہے جائیں جائیں ریزہ ریزہ ہستی اور دل مضطر ہے اور یہ حکم کہ مسکائیں مسکائیں شاعر : ضیغم سلطان

بہارذادے چمن سے بچھڑ گئے ہیں

 بہارذادے چمن سے بچھڑ گئے ہیں خزاں نے پور پور زخمی کر دیا ہے بلبل ہے جاں بلب اور گل تِشنہ لب تتلی کو موت سے ہمکنار کر دیا ہے صبح بھی اب روٹھی روٹھی سی پل پل جیون کو بوجھل کر دیا ہے ذرد آندھیوں میں ہے بوستانِ دل چرخِ فلک نے کیا سے کیا کر دیا ہے کھائے دھوکے تو پھر سمجھے ہیں دل و دماغ کو جدا جدا کر دیا ہے تند ہوا میں رہیں سینہ سپر تتلیاں خلق نے ظلمت میں کمال کر دیا ہے شاعر : ضیغم سلطان

حیات نذرِ خزاں ہوئی اب

 حیات نذرِ خزاں ہوئی اب بہاروں کو ہم پکارتے رہے گرہن طاری رہا دیارِ دل پہ نجم و قمر کو ہم بلاتے رہے یہ رات بھی گزر جائے گی  دل کو دلاسے ہم دلاتے رہے پاش پاش ہے قلب و جگر احوالِ دل ہم چھپاتے رہے زہر بھرا پیالہ تھا لبوں پہ بےاختیار ہم مسکراتے رہے بےچراغی اور بےبسی تھی مقتل خون سے سجاتے رہے میں منصور ہوں, اے اظلم جو سچ ہے وہ ہم بتاتے رہے شاعر : ضیغم سلطان