Posts

Showing posts from July, 2024

نیم، برگد اور پیپل یاد آتے ہیں۔

 نیم ، برگد اور  پیپل یاد آتے ہیں کنکریٹ کے جنگل میں  بیٹھ کے ساقی اور دورِ  سبو یاد  آتے ہیں زاہد کی خشک بزم میں بیٹھ کے دیپ، جگنو اور تارے یاد آتے ہیں ظلمتوں کے سیاہی میں بیٹھ کے قہقہے، ہنستے چہرے یاد آتے ہیں اجنبی اداس راہوں میں بیٹھ کے عید، تہوار اور جشن یاد آتے ہیں غمِ روزگار کے پہلو میں بیٹھ کے اداس غزلیں اور گیت یاد آتے ہیں گرتی دیوار کے سائے میں بیٹھ کے حلوے اور مربہ جات یاد آتے ہیں ماہر طبیب کے دفتر میں بیٹھ کے شاعر : ضیغم سلطان

کرب و بلا

 رزم و بزم یا سفر و حضر دورِ کہن یا ہو عہدِ حاضر صبرِ حسینؓ کا چرچا رہا عَلمِ حق ہمیشہ بلند رہا یزید و شمر تو بےثمر رہا اور حسینیؓ قافلہ امر رہا شاہ زادی تھی تشنہ لب مردِ جری بازو کٹواتا رہا جاں بہ لب وہ ننھی جان عدو تیر و سناں چلاتا رہا معرکۂ حق و باطل تھا مومن سینہ سپر لڑتا رہا جلے خیمے، شامِ غریباں بے ردا، بے سر و ساماں ظلمت اور آہ و فغاں زرد آسماں,زمانہ حیراں مگر کربلا کا ہی سبق ہے فاتح وہ جو متوکل رہا شاعر : ضیغم سلطان

آندھیوں کی ذد میں

 آندھیوں کی ذد میں آئے ہیں جب سے ہم گل بھی بے رنگ ہوئے جگنو بھی بےنور ہوئے دل بھی بوجھل ہوئے سانس بھی ساکن ہوئے چاند بھی دور ہوئے چکور بھی اداس ہوئے بلبل بھی خموش ہوئے گدھ بھی آذاد ہوئے آندھیوں کی ذد میں آئے ہیں جب سے ہم ناخدا بھی سوئے ہوئے پتوار بھی ٹوٹے ہوئے خواب بھی کرچی ہوئے گلشن بھی ذرد ہوئے نجوم بھی کھوئے ہوئے بےثمر بھی شجر ہوئے گلزار بھی پرخار ہوئے خود سے ہم بےزار ہوئے آندھیوں کی ذد میں آئے ہیں جب سے ہم ... شاعر : ضیغم سلطان

زیست کے ہر موڑ پہ

 زیست کے ہر ایک موڑ پہ خزاں ملی بہار کھو گئی، فقط خاکِ سیاہ ملی کالی گھٹائیں گھورتی  ہیں ہر سمے مقدر میں  بس خس و خاشاک ملی حیات محشر زار ہوئی، زار زار روئے ہیروں کی جستجو  میں راکھ  ملی دیپ گُل ہو گئے اور سورج ڈوب گئے ہر  رات خواب میں صرف  رات ملی بزم  سے کنارا  کر لیا جب  دیکھا کہ ہم سے بوئے گل جب ملی، بےزار ملی بعد از زوالِ گلچیں، گلشن کِھل اٹھا جگنو، تتلی، گُل سے بلبل رو کے ملی دورِ ناامیدی ہے ، خواہش جرم ہوئی اس بستی میں رہنے کی یہ سزا ملی شاعر : ضیغم سلطان