Posts

Showing posts from June, 2024

آہِ سبزہ و گل سے ڈر باغباں

آہِ سبزہ و گُل سے ڈر باغباں بےزباں ہے یہ، بے پر تو نہیں بیٹھے سرِراہ تو ہیں اعتراض شارع عام ہے تیرا در تو نہیں یہ پابندی، یہ بندش، یہ جبر کمزور ہیں ، نوالۂ تر تو نہیں بیاں کر دوں اَشراف کا اصل اس میں کچھ شر تو نہیں ؟ گر جائے گی یہ فصیلِ ظلمت یہ تقدیر ہے، کوئی بڑ تو نہیں شاعر : ضیغم سلطان x

کانچ

ٹوٹے کانچ سے پوچھا اک دن تم اس حال میں کیسے پہنچے تم کرچی کرچی ریزہ ریزہ تم کیسا محسوس کرتے ہو  سن کے میری بات، کہنے لگا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوں میں بکھرا بکھرا ہوں چھلنی چھلنی ہوں لیکن خوش ہوں کہ اب کسی کو مجھ سے امید نہیں جھوٹے دلاسے دے کے دل پہ اک بوجھ تھا۔ ڈھرام سے گرا تو لگا کہ دل ہلکا پھلکا ہو گیا کوئی بوجھ ہٹ گیا میں آذاد ہو گیا شاعر : ضیغم سلطان

آؤ جگنوؤں کی بات کریں

 آؤ جگنوؤں کی بات کریں جنگوں میں کیا رکھا ہے آؤ رنگوں کی بات کریں دنگوں میں کیا رکھا ہے آؤ خوشیوں کی بات کریں رنجشوں میں کیا رکھا ہے آؤ آبادیوں کی بات کریں بربادیوں میں کیا رکھا ہے آؤ مسافتوں کی بات کریں ساحلوں میں کیا رکھا ہے شاعر : ضیغم سلطان

یہ کیا منظر ہے میرے سامنے

کوئی بھوک سے نڈھال ہے کوئی خوشی سے نہال ہے یہ کیا منظر ہے میرے سامنے اِس پار اور دنیا آباد ہے اُس پار یہ دنیا برباد ہے یہ کیا منظر ہے میرے سامنے کچھ سپنے سہانے ہیں کچھ ارمان پرانے ہیں یہ کیا منظر ہے میرے سامنے کہیں روشن مینار ہیں کہیں پراسرار غار ہیں یہ کیا منظر ہے میرے سامنے کہیں قدم قدم باغ ہیں کہیں جا بجا داغ ہیں یہ کیا منظر ہے میرے سامنے شاعر : ضیغم سلطان

دشت میں بھی آئے گی اک روز بہار

دشت میں بھی آئے گی اک روز بہار یہ آنگن بھی گلشن سے کم نہ ہو گا چھٹ جائیں گے سحابِ غم دل سے یہ عالم بھی جنت سے کم نہ ہو گا گلچیں چاہے تو اپنی طاقت آزما لے یہ گُل بھی سُول سے کم نہ ہو گا پروانے کے مقدر میں جلنا رقم ہے یہ درد بھی دوا سے کم نہ ہو گا لاؤ گے جب شمس و قمر سرِ بازار یہ تماشا بھی کسی سے کم نہ ہوگا شاعر : ضیغم سلطان